بچپن کے دُکھ کتنے اچھے ہوتے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشیاں بھی جانے کیسی خوشیاں تھیں
تتلی کے پر نوچ کے ناچا کرتے تھے
پاؤں مار کے خود بارش کے پانی میں
اپنی ناؤ آپ ڈبویا کرتے تھے
چھوٹے تھے تو مکر و فریب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑیا پکڑا کرتے تھے
اپنے جل جانے کا بھی احساس نہیں تھا
بھڑکے ہوئے شعلوں کو چھیڑا کرتے تھے
آج بھی ان کی یادیں نیند اُڑاتی ہیں
بچپن میں جو ہم نے سپنے دیکھے تھے
اب تو ایک بھی آنسو رُسوا کر جاتا ہے
بچپن میں جی بھر کے رویا کرتے تھے
ثمینہ اسلم
No comments:
Post a Comment