اس دشتِ آرزو میں بکھرنے تو دے مجھے
اعلان وحشتوں کا وہ کرنے تو دے مجھے
یہ میرا مسئلہ ہے کہ کیسے کروں قیام
پہلے وہ اپنے دل میں اُترنے تو دے مجھے
دیکھے تو ایک بار کبھی وہ بھی پیار سے
تکمیل اپنی ذات کی کرنے تو دے مجھے
پھر دل سے کر رہی ہے کوئی اور سازباز
اے خواہشِ وصال نکھرنے تو دے مجھے
نکھریں گے اور دیکھنا پھر میرے خد و خال
آنکھوں کے آئینے میں سنورنے تو دے مجھے
اک پل سہی پر آنکھ سے یونہی گزر نہ جا
کچھ رنگ آرزوؤں کے بھرنے تو دے مجھے
قطرے سے میں بنوں گی سمندر مگر صدف
یہ شرط ہے وہ جاں سے گزرنے تو دے مجھے
صغرا صدف
صغریٰ صدف
No comments:
Post a Comment