Wednesday, 26 May 2021

نہ آسماں پر کوئی ستارہ نہ کوئی مہتاب جاگتا ہے

 نہ آسماں پر کوئی ستارہ، نہ کوئی مہتاب جاگتا ہے

تمام بستی ہے غرقِ دریا، طلسمِ سیلاب جاگتا ہے

عجیب ہے بے گھری کا لمحہ نہ کوئی چادر نہ کوئی تکیہ

عجیب گھر ہے کہ جس میں آ کر شعورِ اسباب جاگتا ہے

ملالِ تنہائی سے لپٹ کر، ہجومِ خلقت کو یاد کر کے

تمام شب ایک شخص مجھ میں بغیرِ احباب جاگتا ہے

نہ آرزو کا شجر ہرا ہے، نہ صُحبتِ گُلرُخاں ہے لیکن

وصالِ رفتہ کی داستاں میں وہ جسمِ شاداب جاگتا ہے

تمام قصے اگرچہ معدوم ہو چکے حافظے سے لیکن

جہاں کہانی میں موڑ آیا تھا، بس وہی باب جاگتا ہے

بھٹکتا پھرتا ہے جو طلب کی شکار گاہوں میں گرد بن کر

وہ شخص اپنے ہی بام و در میں شکستہ اعصاب جاگتا ہے

اسیرِ عِصیاں کی ہو معافی کہ بندۂ بے ضمیر کب سے

خدائے موہوم کے تصور میں زیرِ محراب جاگتا ہے

میں آنکھ کی قید سے نکل کر رضی عجب خواب دیکھتا ہوں

جو خواب تعبیر سے جدا ہے، وہی پسِ خواب جاگتا ہے


رضی حیدر

No comments:

Post a Comment