Wednesday, 26 May 2021

سوندھی مٹی کی یہ صراحی قطرہ قطرہ گونج رہی ہے

 سوندھی مٹی کی یہ صراحی

قطرہ قطرہ گونج رہی ہے

بھیگی بھیگی شبنم کی رم جھم کرتی جھنکاروں سے

جب بھی کوئی پیاس بجھانے

اوک میں پانی بھرتا ہے

جانے کیسے چوری چوری

پار سمندر کرتا ہے

سوندھی سوندھی خوشبو

اس کی روح کے پار اُترتی ہے

دور بہت ہی دور جزیروں میں جو تارے گرتے ہیں

ان کی یاد میں پگڈنڈی پر

سبک روی سے چلتی ہے

دھوپ چھاؤں میں سال مہینے

پنچھی بن کر اُڑتے ہیں

آنکھ پرونے لگتی ہے کچھ نتھرے لمحے صراحی سے

پینے والے میں تتلی کے پر

خود سے اُگ آتے ہیں

نیلے پانی کی ٹھنڈک سے

آنکھیں مُندنے لگتی ہیں

دل کہتا ہے قطروں کی ان لاوارث آوازوں کو

کانچ کے دریا کی تہہ میں

اک ڈوبنے والی کشتی پر

پھر سے بٹھا کر دور اسی ساحل تک جا کر پہنچائیں

جس کی ریت کی سوندھی خوشبو

سب کو پاگل کرتی ہے


فرزانہ نیناں

No comments:

Post a Comment