سوندھی مٹی کی یہ صراحی
قطرہ قطرہ گونج رہی ہے
بھیگی بھیگی شبنم کی رم جھم کرتی جھنکاروں سے
جب بھی کوئی پیاس بجھانے
اوک میں پانی بھرتا ہے
جانے کیسے چوری چوری
پار سمندر کرتا ہے
سوندھی سوندھی خوشبو
اس کی روح کے پار اُترتی ہے
دور بہت ہی دور جزیروں میں جو تارے گرتے ہیں
ان کی یاد میں پگڈنڈی پر
سبک روی سے چلتی ہے
دھوپ چھاؤں میں سال مہینے
پنچھی بن کر اُڑتے ہیں
آنکھ پرونے لگتی ہے کچھ نتھرے لمحے صراحی سے
پینے والے میں تتلی کے پر
خود سے اُگ آتے ہیں
نیلے پانی کی ٹھنڈک سے
آنکھیں مُندنے لگتی ہیں
دل کہتا ہے قطروں کی ان لاوارث آوازوں کو
کانچ کے دریا کی تہہ میں
اک ڈوبنے والی کشتی پر
پھر سے بٹھا کر دور اسی ساحل تک جا کر پہنچائیں
جس کی ریت کی سوندھی خوشبو
سب کو پاگل کرتی ہے
فرزانہ نیناں
No comments:
Post a Comment