Thursday, 27 May 2021

قاصد نہ آوے ہے کوئی نامہ نہ آوے ہے

 قاصد نہ آوے ہے کوئی نامہ نہ آوے ہے

مدت ہوئی ہے کوئی دلاسا نہ آوے ہے

اس کی طرف سے تو کوئی لیت و لعل نہیں

لیکن ہمیں یہ عشق وغیرہ نہ آوے ہے

محوِ سفر تو ایک زمانے سے ہوں مگر

قابو میں اُس کے شہر کا رستا نہ آوے ہے

کوشش کیے بغیر سرِ مے کدہ کہاں

بیٹھے بٹھائے ہاتھ میں پیمانہ آوے ہے

جانے کو اس گلی میں تو جاویں ہیں سارے لوگ

لیکن کسی کو لوٹ کے آنا نہ آوے ہے

وہ خود بھی چل کے آوے تو بن جاوے کوئی بات

ورنہ خیال اس کا تو روزانہ آوے ہے

نکلے ہوئے ہیں ڈھونڈنے جس دن سے ہم اُسے

کوئی پتا کہیں سے ہمارا نہ آوے ہے

ہم بھی تو اُس دیار کے آخر کو ہو لیے

جا کر جہاں سے کوئی دوبارہ نہ آوے ہے

جائوں گا خود ہی اس کو بلانے کے واسطے

پیاسے کے پاس چل کے تو دریا نہ آوے ہے

پیمانۂ نگاہِ ستم گر نہ ہو تو پھر

رستم کسی شراب کا نشہ نہ آوے ہے


رستم نامی

No comments:

Post a Comment