محبت میں ٹھنی اکثر یہاں تک
کہ پہنچے معرکے تیر و کماں تک
چلے ناوک کھنچی ظالم کماں تک
کہاں تک امتحاں آخر کہاں تک
چلے جاتے ہیں آواز جرس پر
پہنچ جائیں گے بچھڑے کارواں تک
ہوائے شوق کے جھونکے سلامت
رہو گے تم پسِ پردہ کہاں تک
نہ وہ عیّار مجھ سے پوچھتا ہے
نہ دل کی بات آتی ہے زباں تک
اسی سر کو سرِ شوریدہ کہیے
جو پہنچے اس کے سنگ آستاں تک
نیاز و ناز کے چرچے رہیں گے
ہماری اور تمہاری داستاں تک
مبارک کو کوئی دن اور سن لو
بیاں کا لطف ہے اس خوش بیاں تک
مبارک عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment