جانبِ شہرِ بیابان کہاں جاتا ہے؟
اے مِرے یار پریشان کہاں جاتا یے
حالتِ وجد میں معلوم نہیں ہے سائیں
آپ بتلائیں مِرا دھیان کہاں جاتا ہے
جانے کس سمت سے یادوں کی ہوا آتی ہے
اور پھر درد کا طوفان کہاں جاتا ہے
جانے والوں میں کوئی ایک پلٹ آئے کاش
اور بتلائے کہ انسان کہاں جاتا ہے
خوش امیدی سے تراشا ہوا اِمکان حیات
جب ضرورت ہو تو اِمکان کہاں جاتا ہے
کسی مسجد کے کسی گوشے میں جا پڑتا ہے
اجنبی شہر میں مہمان کہاں جاتا ہے
دشتِ سینا کے نشانات نظر آنے لگے
اے مِرے شہر کے سلطان کہاں جاتا ہے
گھر کی دہلیز پہ یہ فکر لیے بیٹھا ہوں
جب اداسی ہو تو انسان کہاں جاتا ہے
رتجگا آنکھ پہ طاری ہے ذرا دیکھوں تو
آنکھ سے خواب کا اِمکان کہاں جاتا ہے
زندگی تیری حمایت میں لڑا ہوں خود سے
زندگی بول یہ احسان کہاں جاتا ہے
رات ہو جائے پشیمان کہاں جاتی ہے
اور جب دن ہو پشیمان کہاں جاتا ہے
آ تجھے ہجر کے اک بھید سے واقف کر لوں
اے مِرے وصل کے ارمان! کہاں جاتا ہے
اسحاق وردگ
No comments:
Post a Comment