بھول بھلیاں
بھول بھلیوں کے اندر اک
دوڑ مچی ہے
پیچیدہ رستوں کے لاکھوں
جال بچھے ہیں
نئی نئی گلیاں، اونچی اونچی دیواریں
دوراہے، چوراہے سب انجان ہیں لیکن
جانے پہچانے لگتے ہیں
دلدل، خندق، تپتے پتھر
خار و خس ہر رستے پر ہیں
ان گلیوں میں
دیواروں کے آگے پیچھے
بچے پھر بھی بھول بھلیوں
کے اک کھیل میں کھوئے ہوئے ہیں
کچھ ناداں ایسے بھی ہیں جو
دروازوں کی
کھوج میں سرگرداں رہتے ہیں
جن کے ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے
پروین شیر
No comments:
Post a Comment