عمومی سوچ سے بڑھ کر بھی کچھ فنکار رکھتا ہے
وسیلہ کوئی بھی ہو، قوتِ اظہار رکھتا ہے
مِرا یہ دل بظاہر مصلحت اندیش ہے، لیکن
انا حاوی اگر ہو، جرأتِ انکار رکھتا ہے
رعایا خود کو کتنی بے اماں محسوس کرتی ہے
عداوت شاہ سے جب بھی سپہ سالار رکھتا ہے
تعجب ہے وفا کے باب میں بھی حد مقرر ہے
وہ سب سمتوں میں جیسے کانچ کی دیوار رکھتا ہے
ہماری چاہتیں سچ ہیں، مگر حالات کا دریا
مجھے اِس پار رکھتا ہے تجھے اُس پار رکھتا ہے
نہیں اپنی خبر فرحان کو، لیکن بصد حیرت
وہ اپنے ساتھ ہر دم صبح کا اخبار رکھتا ہے
فرحان حنیف وارثی
No comments:
Post a Comment