دہکتی آگ میں جل کر طواف کرتے ہیں
پتنگے شمع کا شب بھر طواف کرتے ہیں
فراقِ یار،۔ شبِ غم،۔ وداغ،۔ تنہائی
یہ چند غم ہی مِرے گھر طواف کرتے ہیں
وہ شانِ فقر سے بے گانے ہو گئے یا رب
گلی گلی جو گداگر طواف کرتے ہیں
بھنور میں ڈوبتی ہستی نہیں زوال مِرا
یہ میرے ظرف کا ساگر طواف کرتے ہیں
نہ جانے کیوں وہ مِری خامیوں کو ڈھونڈتے ہیں
حرم کے گرد جو اکثر طواف کرتے ہیں
ابھی تو بادہ گساروں کے منہ نہ لگ واعظ
ابھی تو بزم میں ساغر طواف کرتے ہیں
تمیزِ عابد و معبود جا چکی صادق
لحد کے گرد مجاور طواف کرتے ہیں
ولی صادق
No comments:
Post a Comment