اپنے بارے میں جب بھی سوچا ہے
اس کا چہرہ نظر میں ابھرا ہے
تجربوں نے یہی بتایا ہے
آدمی شہرتوں کا بھوکا ہے
دیکھیۓ تو ہے کارواں ورنہ
ہر مسافر سفر میں تنہا ہے
اس کے بارے میں سوچنے والو
دیکھ لو اب یہ حال اپنا ہے
کون بندش لگائے خوشبو کی
عشق فطرت کا اک تقاضا ہے
یاد آئی ہے جانے کس کس کی
لب پہ جب ذکر اس کا آیا ہے
فکر کی تلخیوں میں گم ہو کر
آدمی بے سبب بھی ہنستا ہے
آرزو مند کوئی ہو تو کہوں
میرے دل میں بھی اک تمنا ہے
میرے چہرے پہ جو لکھا ہے نظر
غور سے کس نے اس کی سمجھا ہے
جمیل نظر
No comments:
Post a Comment