مصیبت کی گھڑی ہے اور میں ہوں
عذابِ دوستی ہے اور میں ہوں
مجھے تڑپا رہی ہے وحشتِ جاں
کسی کی دل لگی ہے اور میں ہوں
غضب کی دھوپ میں صحرا نشینی
لبوں پر تشنگی ہے اور میں ہوں
وہاں پر تُو، تمناؤں کی رونق
یہاں پر خامشی ہے اور میں ہوں
مجھے انکار کی عادت تھی سو اب
قفس کی کوٹھڑی ہے اور میں ہوں
عذابِ گمرہی ہے شہر بھر میں
فشارِ آگہی ہے اور میں ہوں
تِرے کوچے میں آ بیٹھا ہوں احمد
بدن کی روشنی ہے اور میں ہوں
احمد حجازی
No comments:
Post a Comment