غموں کے بوجھ سے بکھرا پڑا سا لگتا ہے
اے زندگی! تِرا چہرہ بجھا سا لگتا ہے
بکھیرتی ہوں تبسم تو لوگ کہتے ہیں
تمہاری آنکھوں میں آنسو رُکا سا لگتا ہے
جگر پے چوٹ لگے مدتیں ہوئی ہوں گی
مگر یہ زخم ابھی تک ہرا سا لگتا ہے
ضرور خط یہ لکھا ہے کسی نے اشکوں سے
ورق، ورق بڑا بھیگا سا لگتا ہے
لیے ہوئے ہے زمانے کا درد سینے میں
ہمارے درد سے وہ آشنا سا لگتا ہے
میں اس خیال سے عطیہ بہت پریشان ہوں
وہ باوفا ہے مگر بے وفا سا لگتا ہے
عطیہ عکس نور
No comments:
Post a Comment