Sunday, 24 October 2021

دکھی تو سب ہی ہیں پر ان میں عزادار کوئی

 دکھی تو سب ہی ہیں پر ان میں عزادار کوئی

شجر تو سب ہیں مگر ان میں ثمربار کوئی

میرا بازار تلک جانا کہاں تھا ممکن

تھی یہ آواز؛ کہ آیا سرِ بازار کوئی

میں جو کہتا تھا کہ میں اب نہ سنوں گا کچھ بھی

کرتا کیا، سامنے مانوس تھی گُفتار کوئی

خود سے جو عہد کیۓ عہد وہ توڑے خود ہی

بس کھٹکتا تھا خیالِ دلِ دلدار کوئی

کب تلک مجھ کو تماشوں سے لُبھاتا رہتا

خود وہ جانے تھا کہ وہ ہے نہیں فنکار کوئی


حسین فرید

No comments:

Post a Comment