دکھی تو سب ہی ہیں پر ان میں عزادار کوئی
شجر تو سب ہیں مگر ان میں ثمربار کوئی
میرا بازار تلک جانا کہاں تھا ممکن
تھی یہ آواز؛ کہ آیا سرِ بازار کوئی
میں جو کہتا تھا کہ میں اب نہ سنوں گا کچھ بھی
کرتا کیا، سامنے مانوس تھی گُفتار کوئی
خود سے جو عہد کیۓ عہد وہ توڑے خود ہی
بس کھٹکتا تھا خیالِ دلِ دلدار کوئی
کب تلک مجھ کو تماشوں سے لُبھاتا رہتا
خود وہ جانے تھا کہ وہ ہے نہیں فنکار کوئی
حسین فرید
No comments:
Post a Comment