Sunday 24 October 2021

خواب خدشے ستم بکھرے بکھرے ہیں ہم

 خواب، خدشے، ستم، بکھرے بکھرے ہیں ہم

کیسے کیسے ہوئے چاہتوں کے کرم

اب تو اپنا بھی ملتا نہیں ہے سراغ

ہجر کی تیرگی میں ہوئے گُم صنم

ہر قدم پر ہیں لاشے تمناؤں کے

کیسے رکھیں یہاں زندگی کا بھرم

آرزو دل کی گلیوں میں پھرتی رہی

لب پہ فریاد تھی اور آنکھیں تھیں نم

ذہن سوچوں کے نرغے میں گھرتا گیا

آرزو نے لیا جونہی پہلا جنم

کچھ ستم ذہن پر اتنے حاوی ہوئے

قصۂ درد پورا ہوا نہ رقم

ہاتھ ملتی رہی یاں گدا زندگی

خواہشیں لے گیا کاروانِ عدم

اور نیکی اگر کوئی کر نہ سکو

دل دُکھانا غریبوں کا تم کم سے کم

میری خوبی نہیں یہ ہے رب کا کرم

دل میں رچ بس گئی ہے اذانِ حرم

چاند تاروں سے آگے کا اب ہے سفر

کون روکے گا اب ناز تیرے قدم


ناز ہاشمی

ایس ناز

No comments:

Post a Comment