جب پھیل کے ویرانوں سے ویرانے ملیں گے
دل کھول کے دیوانوں سے دیوانے ملیں گے
اے کوئے خموشی کی طرف بھاگنے والو
ہر گام پہ افسانے ہی افسانے ملیں گے
زنجیر لیے ہاتھوں میں کچھ سوچ رہے ہیں
زنداں میں بہت ایسے بھی دیوانے ملیں گے
جو گرمئ محفل سے جلا لیتے ہیں شمعیں
پروانوں میں کچھ ایسے بھی پروانے ملیں گے
ہاں دیکھ ذرا پھیل کے اے تشنگیٔ شوق
ہر جام میں سمٹے ہوئے مے خانے ملیں گے
اعزاز افضل
No comments:
Post a Comment