Saturday, 23 October 2021

اس کے دل میں تو نہاں جذبۂ ایماں نکلا

 اس کے دل میں تو نہاں جذبۂ ایماں نکلا

جس کو سمجھا تھا میں کافر وہ مسلماں نکلا

اشک کیا چیز ہے، اک آہ نہ منہ سے نکلی

درد بھی دل سے مِرے ہو کے پشیماں نکلا

آرزو، حسرت و ارمان، تمنا تیری

خانۂ دل میں مِرے یہ سر و ساماں نکلا

پیرہن اس کی انا کا ہے سلامت اب تک

میری چاہت کا مگر چاک گریباں نکلا

میں نے دیکھا تھا جو کچھ، جاگتی آنکھوں سے کبھی

وہ حقیقت میں مِرا خواب پریشاں نکلا

سی گیا زخم جگر بھی اسی یکسوئی سے

وہ رفوگر تو مِرے درد کا درماں نکلا

خو‌ں ‌بہا تک نہ دیا، آہ مِرے قاتل نے

خون ناحق مِرا پانی سے بھی ارزاں نکلا


متین امروہوی

No comments:

Post a Comment