شوقِ وارفتگی میں دیکھا ہے
آدمی کرچیوں پہ چلتا ہے
اکثر اوقات گر بھی جاتا ہے
چوٹ لگتی ہے، درد ہوتا ہے
دھول اڑتی ہے اردگرد یہاں
حبس رہتا ہے سارے موسم اور
گرد آلود سارے منظر ہیں
زندگی طاقچے پہ رکھی ہے
اک دیا سا یہ جلتا، بجھتا ہے
”اور فضا سوگوار ہوتی ہے“
جب پتنگے کسی تعاقب میں
آگ کے گرد رقص کرتے ہیں
ہیں بظاہر یہ طاقچے روشن
ان چراغوں تلے اداسی ہے
”ایک صحرا ہے سامنے اپنے“
دھول سانسوں میں اڑتی پھرتی ہے
شام کن جنگلوں میں اتری ہے
روشنی تیرگی میں ڈھلتے ہی
روز خوابوں کو ہم جلاتے ہیں
اپنی ہستی مزار لگتی ہے
راکھ بکھری پڑی ہے آنکھوں میں
شوقِ وارفتگی میں چلتے ہیں
ٹھیک سے سانس بھی نہیں ملتی
اور مسلسل سفر میں رہتے ہیں
زندگی تیرا بوجھ ڈھوتے ہیں
ہم کو اجرت میں کچھ نہیں ملتا
ڈور کا اک سِرا ہے ہاتھوں میں
دوسرا ہے کہاں ؟ نہیں کُھلتا
کچھ گھروندے ہیں ریت پر سہمے
باقی مِسمار ہو گئے ہوں گے
نقش سب دھو دیئے ہیں لہروں نے
ہم بھی حصہ رہے تماشے کا
ہم بھی کردار تھے کہانی میں
پھر یہ ساحل پہ کیوں کر آ نکلے
جانے کیا ڈھونڈنا تھا پانی میں
”پانیوں پہ نشاں نہیں رہتے“
سلیم شہزاد
No comments:
Post a Comment