ہمیں اب کوچ کرنا ہے
شفق پھوٹی چھلکتے سات رنگوں سے
کٹورا بھر گیا دن کا
زمیں مٹیالے ہاتھوں کی حرارت تاپنے جاگی
مرے بچے! ہمیں اب لوٹنا ہو گا
گھنے پیڑوں کے سائے میں
جہاں بھیڑوں کے ریوڑ کو قناعت چست رکھتی ہے
جہاں مچھلی بھی کائی بھوک سے زیادہ نہیں کھاتی
گلہری کے لیے اخروٹ کا چھلکا بھی کافی ہے
درختوں پر جہاں پنچھی بسیرا کرتے ہیں
قبضہ نہیں کرتے
جہاں ہے بر لبِ موجِ ہوا اک لحنِ آزادی
متاعِ روحِ آزادی
نشاطِ اصلِ آزادی
جہاں پھولوں کو بے پردا بھی کھلنے کی ہے آزادی
ہمیں ان سبزہ زاروں کی طرف اب کوچ کرنا ہے
مرے بچے! جہاں ہم آن نکلے ہیں
یہ منڈی تاجروں کی ہے
یہاں چہکار چڑیوں کی
چمکتے تتلیوں کے پر کوئی قیمت نہیں رکھتے
سمندر کا کنارہ، سیپیاں، دم توڑتی لہریں
بھگوتی ہی نہیں پلکیں
منافع پر نظر رکھتی ہیں کاروبار کی آنکھیں
دھڑکتے پانیوں کی لَے نہیں سنتے ہیں بیوپاری
یہاں تہذیب کی، تاریخ کی اور تخت کی قیمت
فقط اک کھوٹا سکہ ہے
یہاں انسان کیا شئے ہے خدا بے مول بکتا ہے
تو اس سے پیشتر سودا ہمارا طے کیا جائے
ہمارا کل اثاثہ کوڑیوں کے دام بک جائے
ہمیں اب کوچ کرنا ہے
نینا عادل
No comments:
Post a Comment