وہ بیدار آنکھیں
جنہیں میں جدائی کے رستے
دھڑکتی ہوئی زندگی کا حوالہ بنا کر
خرابی سے لبریزراتوں کو چلتا
تو اجرامِ فلکی مرے واسطے
روشنی کی طرف بھاگتی شاہراہوں کو چنتے
وہ رنگین چولے
جنہیں میں پہنتا
تو دادا کے نازک
مسافت بھرے دل میں چڑیاں چہکتیں
دسمبر کی خنکی میں بہتے دنوں کے
کنارے چمکتی دمکتی ہوئی
دھوپ کی پشت پر
نیند کے سرخ چھجوں سے
ہنسوں کا جوڑا اترتا
وہ ہنسوں کا جوڑا کہ جس کے پروں میں
بیاں اور بیاباں کی لمبی اڑانوں کا آہنگ تھا
اک دعا بارشوں کی کشاکش میں
آبِ رواں کے لیے
ایک ترتیب کے درمیان
خوشدلی کو لرزتا ہوا قاعدہ
میں جسے انتہائی زمانوں سے
پوروں پہ گنتا چلا آ رہا ہوں
انہی گنتیوں میں بہت دیر چل کر
گھڑی دو گھڑی آنکھ لگتی ہے
زانو بہ زانو کہیں باغ میں جاگتا ہوں
تواتر سے خود کو سناتا ہوں
بیدار آنکھوں کے قصے
کہیں آخرِکار نکلی ہوئی فال کی پانچ سطریں
درِ مہر و ماہ کھولتے بند کرتے ہوئے
رفتگاں کی دعائیں
جنہیں خلق اپنی مشقت کے تختِ رواں پہ لیے
دوڑتی پھر رہی ہے
مگر جاگ لگنے کا امکان کم ہے
یہ اولادِ آدم کی نسبت سے رکھی گئی جاگ ہے
جاگ جس کے دروں
آپ ہی آپ خود کو بچھانے
نبھانے کا سامان جیسے زمیں کے لیے
دیومالا کی موعودہ جنت
اسیری کے موسم میں بہتا ہوا
سرد نہروں کا پانی
ہمیں جس کی خاطر
رہائی کو آواز کرنا پڑے گا
بدن کے دروبست میں غیر ممکن علاقہ
پھلاہی کے پھولوں سے بھرنا پڑے گا
فرخ یار
No comments:
Post a Comment