Saturday 23 October 2021

درد تھمتا ہی نہیں سینے میں آرام کے بعد

 درد تھمتا ہی نہیں سینے میں آرام کے بعد

ہم تو جلتے ہیں چراغوں کی طرح شام کے بعد

بس یہی سوچ کے اکثر میں لرز جاتا ہوں

جانے کیا ہو گا مِرا حشر کے ہنگام کے بعد

عشق کر بیٹھے مگر ہم نے یہ سوچا ہی نہیں

خاک ہو جائیں گے ہم عشق کے انجام کے بعد

لکھ کے کاغذ پہ تِرا نام، قلم🖋 توڑ دیا

کوئی بھایا ہی نہیں مجھ کو تِرے نام کے بعد

غم کے سیلاب میں پھر بہہ گیا مسکن میرا

چین پایا ہی تھا اک بارشِ آلام کے بعد

مِرے قاتل نے مِری لاش پہ دم توڑ دیا

وہ پشیماں تھا بہت قتل کے الزام کے بعد

ہم نے سیکھا ہے ہنر، فتح و ظفریابی کا

عزم اپنا ہے جواں کوششِ ناکام کے بعد

سنگساری و ملامت ہوئے اب اپنے نصیب

ہم تو برباد ہوئے کوچۂ اصنام کے بعد

کیا خزاں آئی، کہ برباد ہوا سارا چمن

رہ گئی آہ و فغاں گلشنِ گلفام کے بعد


عسکری عارف

No comments:

Post a Comment