سامنے اک کتاب ادھ کھلی اور میں
بے سبب شمع جلتی ہوئی اور میں
بے صدا ایک نغمے کے ہیں منتظر
دف بجاتی ہوئی خامشی، اور میں
وقت کی کوکھ کا بر محل سانحہ
یہ جہاں مضطرب، زندگی اور میں
کچھ پرند آسماں سے اترتے ہوئے
لطف اندوز جن سے ندی اور میں
وقت کی شاخ پر خوشنما پھول تھے
وہ گلی حسن کی سادگی اور میں
جسم دھنسنے لگا رات کی قبر میں
پھر وہی خواب کی آگہی اور میں
جسم پر رینگ اٹھیں بے بدن چیٹیاں
پھر وہی دھوپ سی چاندنی اور میں
اسلم حنیف
No comments:
Post a Comment