میں تلخیوں میں شہد رچاتا چلا گیا
ہنستا ہنساتا، پیتا پلاتا چلا گیا
ہوتے رہے نصیب کچھ ایسے حسیں فریب
میں خود کشی کا جشن مناتا چلا گیا
مجھ کو کسی کے آنے کا اتنا یقین تھا
شب کٹ گئی میں گھر کو سجاتا چلا گیا
اک حرف بھی نہ اس کا وہ اگرچہ سمجھ سکے
میں اپنی بات اس کو سناتا چلا گیا
شک ہے کہ رہزنوں میں شرافت تھی بے حساب
ورنہ میں کیسے بچتا بچاتا چلا گیا
کتنے کشادہ قلب تھے احباب اے عدم
جو بھی ملا وہ آنکھ بچاتا چلا گیا
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment