ڈرو اس وقت سے
ڈرو اس وقت سے
اے شاعرو، اے نغمہ خوانو، اے صنم سازو
اچانک جب تمہاری سمت
کچھ صدیوں پرانے شیش محلوں سے
سنا سن تیر برسیں گے
بہت چِلاؤ گے تم
اور پکارو گے بہت باذوق دنیا کو
مگر با ذوق دنیا کا ہر اک باشندہ
پہلے ہی گھائل ہو چکا ہو گا
جو باقی لوگ ہوں گے
وہ تمہارا ساتھ کب دیں گے
کہ وہ تو رجعتوں کی ہیروئن
پینے کے عادی ہو چکے ہوں گے
انہیں تو صرف وہ باتیں بھلی معلوم ہوں گی
جہالت کا اندھیرا اور بھی ان کی رگوں میں جن سے بھر جائے
وہ باتیں
عقل و استدلال کا اک شائبہ جن میں نہیں ہوتا
یہ مانا تم بہت سمجھاؤ گے ان کو
مگر کوئی نہ سمجھے گا
اور اس دورِ سیاہی میں
جو برپا کربلا ہو گا
وہاں کوئی بھی حُر پیدا نہیں ہو گا تمہاری پاسداری کو
ملیں گے سب تمہارے خون کے پیاسے
ڈرو اس وقت سے
اے شاعرو، اے نغمہ خوانو، اے صنم سازو
جو ممکن ہو تو بڑھ کر روک لو
اس آنے والے وقت کا رستہ
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment