Wednesday, 2 March 2022

اب نہ فرصت ہے نہ احساس ہے غم سے اپنے

 اب نہ فرصت ہے نہ احساس ہے غم سے اپنے

ورنہ ہم روز ہی ملتے تھے صنم سے اپنے

دل نہ مانا کہ کسی اور کے رستے پہ چلیں

لاکھ گمراہ ہوئے نقشِ قدم سے اپنے

جی چکے جو ہم یہی شوق کی رسوائی ہے

تم سے بیگانے ہوئے جاتے ہیں ہم سے اپنے

ہم نہیں پھر بھی آباد ہے محفل ان کی

ہم سمجہتے تھے کہ رونق ہے تو دم سے اپنے

میرے دامن کے مقدر میں ہے خالی رہنا

آپ شرمندہ نہ ہوں دستِ کرم سے اپنے

رہ چکے مرگِ تمنا پہ بھی اک عمر فراز

اب جو زندہ ہیں تو شعروں کے بھرم سے اپنے


احمد فراز

No comments:

Post a Comment