لاکھ رہے شہروں میں پھر بھی اندر سے دیہاتی تھے
دل کے اچھے لوگ تھے لیکن تھوڑے سے جذباتی تھے
اب بھی اکثر خواب میں ان کے دھندلے چہرے آتے ہیں
میری گڑیا کی شادی میں جو ننھے باراتی تھے
اپنے گرد لکیریں کھینچیں اور پھر ان میں قید ہوئے
اس دنیا میں کھیل تھے جتنے سارے ہی طبقاتی تھے
جھونپڑیوں میں رہنے والے ان کی فطرت جان گئے
کبھی کبھی چڑھ آنے والے نالے جو برساتی تھے
جس بادل نے سُکھ برسایا جس کی چھاؤں میں پرِیت ملی
آنکھیں کھول کے دیکھا تو وہ سب موسم لمحاتی تھے
جن کو بڑا مانا تھا میں نے فرحت! وہ کیوں بھول گئے
کچھ گوشے میرے جیون کے بالکل میرے ذاتی تھے
فرحت زاہد
No comments:
Post a Comment