Wednesday, 2 March 2022

لاکھ رہے شہروں میں پھر بھی اندر سے دیہاتی تھے

 لاکھ رہے شہروں میں پھر بھی اندر سے دیہاتی تھے 

دل کے اچھے لوگ تھے لیکن تھوڑے سے جذباتی تھے 

اب بھی اکثر خواب میں ان کے دھندلے چہرے آتے ہیں 

میری گڑیا کی شادی میں جو ننھے باراتی تھے 

اپنے گرد لکیریں کھینچیں اور پھر ان میں قید ہوئے 

اس دنیا میں کھیل تھے جتنے سارے ہی طبقاتی تھے 

جھونپڑیوں میں رہنے والے ان کی فطرت جان گئے 

کبھی کبھی چڑھ آنے والے نالے جو برساتی تھے 

جس بادل نے سُکھ برسایا جس کی چھاؤں میں پرِیت ملی

آنکھیں کھول کے دیکھا تو وہ سب موسم لمحاتی تھے 

جن کو بڑا مانا تھا میں نے فرحت! وہ کیوں بھول گئے 

کچھ گوشے میرے جیون کے بالکل میرے ذاتی تھے


فرحت زاہد

No comments:

Post a Comment