باعثِ آزارِ جاں ہیں چھوٹی چھوٹی خواہشیں
لوگ کس بِرتے پہ کر لیتے ہیں لمبی خواہشیں
ایک کی تکمیل بھی گو میری قدرت میں نہیں
کر تو سکتا ہوں مگر میں دنیا بھر کی خواہشیں
حسرتوں میں ڈھل کے آخر جان لے لیں گی تری
اے مِرے درویش دل! تُو کر نہ اتنی خواہشیں
کر دیا ہے جس نے مجھ کو بے نیازِ ہر نشاط
اس کے دل میں بھی تو ہوتیں میرے جیسی خواہشیں
طائرانِ مصلحت بیں ہیں سوارِ دوشِ غیر
میں لیے بیٹھا ہوں اپنے بال و پر کی خواہشیں
ہے غنائے نفس ہی میرے لیے سامانِ عیش
مال و زر سے ہو سکی ہیں پوری کس کی خواہشیں
اک اسی کی آرزو نے کر دیا رسوا مجھے
تھیں نہ جانے دل میں ازہر اور کتنی خواہشیں
ازہر درانی
No comments:
Post a Comment