Wednesday, 2 March 2022

جو میں نے چٹخنی کھولی تو وہ بولی

 جو میں نے چٹخنی کھولی

 

غلط فہمی تھی میری

میں سمجھتا تھا 

کہ میری بے ضرر عینک کے شیشے 

سرد چشمے کی طرح بےجان ہیں

دھندلی بصارت چھان کر آنکھوں کے کاسے بھرتے رہتے ہیں

جو ان کا کام ہے

بس کرتے رہتے ہیں

مگر کیا کیجیے صاحب 

چھنال عینک بڑی دھونتال ہے

تہمت بناتی ہے

یہ جب دیکھو مجھے دنیا کی نظروں سے گراتی ہے

تو میں سبکی اٹھاتا ہوں

وہ دستک کم تھی

تھراہٹ زیادہ تھی

جو میں نے چٹخنی کھولی 

ہوا بولی؛

وحید احمد

مرے اک ریشمی جھونکے کا پلو 

کل تری عینک میں الجھا رہ گیا ہے

ہاں یہ دیکھو

یہ رہا

میں حق چھڑانے آئی ہوں

آنچل مجھے دے دو

تمہارے کانچ آوارہ ہوئے ہیں 

ان سے کہہ دو

یہ شرافت سے رہیں شیشے بنیں

میں اک دن دھوپ کی چوکھٹ پہ بیٹھا تھا 

اچانک دیکھتا کیا ہوں 

کہ کھڑکی بج رہی ہے

اور اک تتلی مجھے ملنے کو بے کل ہے

جو میں نے چٹخنی کھولی 

تو وہ بولی؛

وحید احمد

مِرے اک ہونٹ کا کیسر تمہارا ایک شیشہ لے گیا ہے 

کیسری شیشہ

مجھے وہ رنگ چننا ہے

مجھے تم رنگ دو

اچانک رات کو جب نیند ٹوٹی

دیکھتا کیا ہوں

کہ سائے میری عینک کے کواڑوں سے نکل کر

گھر سے باہر جا رہے ہیں 

میں بھی ان کے ساتھ چلنے لگ گیا

بھیگی اماوس میں چمکتے سرد قبرستان میں

 بےچین خوشبو تھی

سبھی سائے

جب اپنی خانقاہوں میں سمائے

میں نے اپنے گال پونچھے 

جب مِری عینک ٹپکنے لگ گئی تھی

مِری گردن میں باہیں 

اور مِری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر

وہ اپنی دھڑکن سے مِری دھڑکن پہ دستک دے رہی تھی

چٹخنی کھولی

تو وہ بولی؛

وحید احمد

تمہاری آنکھ کا چشمہ ابلتا ہے

مِرا سنگھار پھیکا پڑ گیا ہے

میرے ماتھے پر چمکتے

دب اکبر کا ستارہ تم نے شیشے میں اتارا ہے

مجھے میرا ستارہ دو

تمہارے کانچ آوارہ ہوئے ہیں 

ان سے کہہ دو 

یہ شرافت سے رہیں شیشے بنیں


وحید احمد

No comments:

Post a Comment