جو میں نے چٹخنی کھولی
غلط فہمی تھی میری
میں سمجھتا تھا
کہ میری بے ضرر عینک کے شیشے
سرد چشمے کی طرح بےجان ہیں
دھندلی بصارت چھان کر آنکھوں کے کاسے بھرتے رہتے ہیں
جو ان کا کام ہے
بس کرتے رہتے ہیں
مگر کیا کیجیے صاحب
چھنال عینک بڑی دھونتال ہے
تہمت بناتی ہے
یہ جب دیکھو مجھے دنیا کی نظروں سے گراتی ہے
تو میں سبکی اٹھاتا ہوں
وہ دستک کم تھی
تھراہٹ زیادہ تھی
جو میں نے چٹخنی کھولی
ہوا بولی؛
وحید احمد
مرے اک ریشمی جھونکے کا پلو
کل تری عینک میں الجھا رہ گیا ہے
ہاں یہ دیکھو
یہ رہا
میں حق چھڑانے آئی ہوں
آنچل مجھے دے دو
تمہارے کانچ آوارہ ہوئے ہیں
ان سے کہہ دو
یہ شرافت سے رہیں شیشے بنیں
میں اک دن دھوپ کی چوکھٹ پہ بیٹھا تھا
اچانک دیکھتا کیا ہوں
کہ کھڑکی بج رہی ہے
اور اک تتلی مجھے ملنے کو بے کل ہے
جو میں نے چٹخنی کھولی
تو وہ بولی؛
وحید احمد
مِرے اک ہونٹ کا کیسر تمہارا ایک شیشہ لے گیا ہے
کیسری شیشہ
مجھے وہ رنگ چننا ہے
مجھے تم رنگ دو
اچانک رات کو جب نیند ٹوٹی
دیکھتا کیا ہوں
کہ سائے میری عینک کے کواڑوں سے نکل کر
گھر سے باہر جا رہے ہیں
میں بھی ان کے ساتھ چلنے لگ گیا
بھیگی اماوس میں چمکتے سرد قبرستان میں
بےچین خوشبو تھی
سبھی سائے
جب اپنی خانقاہوں میں سمائے
میں نے اپنے گال پونچھے
جب مِری عینک ٹپکنے لگ گئی تھی
مِری گردن میں باہیں
اور مِری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
وہ اپنی دھڑکن سے مِری دھڑکن پہ دستک دے رہی تھی
چٹخنی کھولی
تو وہ بولی؛
وحید احمد
تمہاری آنکھ کا چشمہ ابلتا ہے
مِرا سنگھار پھیکا پڑ گیا ہے
میرے ماتھے پر چمکتے
دب اکبر کا ستارہ تم نے شیشے میں اتارا ہے
مجھے میرا ستارہ دو
تمہارے کانچ آوارہ ہوئے ہیں
ان سے کہہ دو
یہ شرافت سے رہیں شیشے بنیں
وحید احمد
No comments:
Post a Comment