Wednesday, 2 March 2022

نہ نیند ہے نصیب میں نہ خواب ہے عذاب ہے

 نہ نیند ہے نصیب میں نہ خواب ہے، عذاب ہے

اے یار! یہ جو عشق والا باب ہے، عذاب ہے

عجیب ہے کہ خار کی گزر گئی ہے خیر سے

خزاں کے ہاتھ لگ گیا گلاب ہے، عذاب ہے

بصد وفا میں جس کو لے کے آ گیا شعور تک

وہ کہہ رہا ہے تو بہت خراب ہے، عذاب ہے

کبھی ترے لبوں کے رس سے تشنگی مری بجھے

حواس پر محیط جو یہ خواب ہے، عذاب ہے

تمہارے بعد ہر کسی کا پیار مجھ سے چھن گیا

تمہارے بعد آب بھی سراب ہے، عذاب ہے

گلی کے موڑ موڑ پر کھڑے ہوئے ہیں بھیڑئیے

سو ایسے میں جہاں جہاں شباب ہے، عذاب ہے

یہ چاند کس لیے چھپا ہے بادلوں کی اوٹ میں

رخِ حسیں پہ جو یہ اک نقاب ہے، عذاب ہے

اسد تو اپنی آنکھ کو حیا کے قاعدے پڑھا

جو آج کل ہوس زدہ نصاب ہے، عذاب ہے


عمران اسد

No comments:

Post a Comment