ہر کسی آنکھ کا بدلہ ہوا منظر ہو گا
شہر در شہر مسیحاؤں کا لشکر ہو گا
آیئنہ رو ہے اگر دل تو حفاظت کیجے
کس کو معلوم ہے کس ہاتھ میں پتھر ہو گا
لے کے پیغامِ خزاں آیا ہے میرے در پہ
وہ جو کہتا تھا کہ آنگن میں صنوبر ہو گا
پھر سیاست کی مہک آنے لگی ہے مجھ کو
جانے اب کون مِرے شہر میں بے گھر ہو گا
چھو کے دیکھو تو سہی اس میں نمی باقی ہے
یہ جو صحرا ہے کسی وقت سمندر ہو گا
عمران سائل
No comments:
Post a Comment