صاحبِ جرأتِ اظہار نہیں ہے کوئی
وقت سے بر سرِ پیکار نہیں ہے کوئی
ہنس رہا ہوں میں سرِ بزم حوادث کہ جہاں
مسکرانے پہ بھی تیار نہیں ہے کوئی
میرے ہر شعر میں دھڑکن ہے دل عالم کی
یہ حدیثِ لب و رخسار نہیں ہے کوئی
مانگ کیا مانگتی ہے فصل بہاراں ہم سے
لاکھ اس دشت میں گلزار نہیں ہے کوئی
ہے بڑی رونق بازار ہوس شہر بہ شہر
جنسِ الفت کا خریدار نہیں ہے کوئی
آج خیراتِ مسرت کے سبھی طالب ہیں
نعمتِ غم کا طلب گار نہیں ہے کوئی
بات جو کہہ کے سرِ بزم پلٹ جاتے ہیں
ان کی تقریر کا معیار نہیں ہے کوئی
کس کو رودادِ غم زیست سناؤں جا کر
بات کرنے پہ بھی تیار نہیں ہے کوئی
خوابِ فردا میں اسے دیکھ رہا ہوں میں کمال
جس قفس میں در و دیوار نہیں ہے کوئی
کمال لکھنوی
سید غلام عباس
No comments:
Post a Comment