اب دیکھ رہے ہو نہ پذیرائی ہماری
صد شکر زمانے کو سمجھ آئی ہماری
تم کو نہ بدلنا پڑے تالاب کا پانی
تم کو نہ بسر کرنی پڑے کائی ہماری
افلاک کے اس پار نظر آتا تھا ہم کو
تُو تھا تو بہت تیز تھی بینائی ہماری
تم بھیج نہیں سکتے ہو گُلزار کی نظمیں
تم بانٹ نہیں سکتے ہو تنہائی ہماری
پرکھو کسی میزان پہ معیارِ بصیرت
ماپو کسی پیمانے سے گہرائی ہماری
فیصل خیام
No comments:
Post a Comment