Thursday, 8 December 2022

خشک خشک آنکھوں کا اور کیا کیا جائے

 خشک خشک آنکھوں کا، اور کیا کیا جائے

گاہے گاہے اشکوں سے، ان کو دھو لیا جائے

ٹھیک ہے کہ سینے میں گُھٹ رہی ہیں آوازیں

کوئی سننے والا ہو، تب تو کچھ کہا جائے

ورنہ عمر بھر اک ڈر، پاؤں روک رکھے گا

وقت آ گیا ہے اب، بھیڑ میں چلا جائے

علم ہے مِرے پیچھے، چل رہی ہے اک دنیا

پھر بھی کیا ضروری ہے، راستہ دیا جائے

روز شام ہوتے ہی، ناپتے ہیں سڑکیں ہم

کیوں نہ چند شامیں اب، گھر میں بھی رہا جائے

اب تو میرے ذہن و دل، تیرے پاس گروی ہیں

اور تیرے سانچے میں، کس قدر ڈھلا جائے

راستہ بچا جو ہے، ایسے کاٹ لیتے ہیں

اب نہ کچھ کہا جائے، اب نہ کچھ سنا جائے


عبداللہ ندیم

No comments:

Post a Comment