اسے پکارو
اسے پکارو، اسے پکارو
جو ریگزاروں میں قافلے سے بچھڑ گیا ہے
اسے بتاؤ
یہ ریت بچھڑے ہوؤں کی خاطر تو بھیڑیا ہے
اسے پکارو
چلا نہ جائے وہ دور اتنا
کہ پھر صدائیں بھی اس کے کانوں کی چاہ میں
پیاس کے سمندر میں ڈوب جائیں
اور ان کی لاشوں
برہنہ لاشوں کو ریت اپنا لباس دے دے
اسے پکارو
کہ قافلہ انتظار کب تک کرے گا آخر
کسی سحر اپنی منزلوں کی طرف
چلا جائے گا یہ اور پھر
ہوا کا دستِ شفا پڑاؤ کے
سارے زخموں کو بھر کے
صحرا کے جسم سے داغ تک مٹا دے گا
اور بانگِ درا
خموشی کے جن کی آرام گہ کی زینت بنی رہے گی
اسے کہو کہ وہ لوٹ آئے
کہ قافلے میں کوئی نہیں ہے
جو اس کے اونٹوں کو ان کی منزل پہ لے کے جائے
تنویر مونس
No comments:
Post a Comment