جو میں نے شعر میں برتا ہے استعارہ سمجھ
مِری نگاہ کا مرکز ہے جو اشارہ، سمجھ
جو ایک نانِ شبینہ بھی روز مل جائے
خدا کا شُکر بجا لا، اسے گزارہ سمجھ
کسی کی یاد کی خُوشبو سُلگ بھی سکتی ہے
جو اُڑتا پھرتا ہے جگنو اسے شرارہ سمجھ
ابھی کہ وقت ہے خود کو سنبھال لے ورنہ
تِرے خلاف ہوا ہے ہر اک ادارہ، سمجھ
پڑا ہوں راہ میں لیکن بکاؤ جنس نہیں
تو میری ذات پہ اپنا ہی بس اجارہ سمجھ
تُو جتنی چاہے یہاں بستیاں بناتا جا
مگر ضروری ہے دریا سمجھ کنارہ سمجھ
جسے تُو دور سے تکتا ہے، آگ ہے سُن لے
ہر اک چمکتی ہوئی شے کو مت ستارہ سمجھ
عدُو ہے تاک میں محفل میں ہمکلام نہ ہو
تُو میری بات نہ سُن، آنکھ کا اشارہ سمجھ
دیا ہے غم جو کسی نے تو کیا ہوا زاہد
اسے تو زیست کا حاصل سمجھ سہارا سمجھ
محبوب زاہد
No comments:
Post a Comment