Friday 10 March 2023

میں اکتا گیا ہوں نہ جانے کیوں خود سے

 میں اکتا گیا ہوں


میں اکتا گیا ہوں نہ جانے کیوں خود سے 

وجودِ جہاں سے

زمیں، آسماں سے

محبت کے بارِ گراں سے 

ہر اک بد گماں سے

شہر، گاؤں قصبے سے اور گلستاں سے 

یہاں سے وہاں سے، میں اکتا گیا ہوں 

میں اکتا گیا ہوں  

معیشت کے بگڑے توازن، سیاسی تعفن سماجی گھٹن سے 

بدستور مرجھائے، بکھرے گلاب و سمن سے

چمن سے 

میں اکتا گیا ہوں

میں اکتا گیا ہوں

زمانے کے یکساں چلن سے

میں خود اپنی ہی فکر کے بار سے تھک چکا ہوں

ہٹاؤ اضافی روایات کا بوجھ میرے بدن سے 

مجھے مت سناؤ اداسی کے قصے ہنسی کے فسانے 

یہ دفتر کی باتیں 

منافعے، خسارے 

سیاسی پلندے، کرپشن کے دھندے، معیشت کے پھندے 

محبت میں دھوکے، وفاؤں کے نغمے 

غموں کا اجارا، سناؤ نیا کچھ خدارا 

خدارا

کہو کچھ نیا، کچھ کہو ان سنا سا 

سناؤ مجھے کچھ نئی نغمگی سی

کوئی ایسی موسیقی 

جس کے سُروں سے زمانہ بھی نا آشنا ہو

مگر اس کے راگوں کی ہر لے میں 

بس امن کا ساز کانوں میں رس گھولتا ہو

وہ منظر دکھاؤ جو پہلے نہ دیکھا کسی نے

کوئی ایسی پینٹنگ کہ جس میں  مصور دکھائے 

امیدوں کی تازہ جھلک پھوٹتی کونپلوں سے

تخیل میں بنتی نئی کائناتوں کا بگ بینگ

جس سے بنی نت نئی فکر کی کہکشائیں 

نئی جہت میں محو گردش رہیں

سو مجھے یہ بتاؤ خدا بھی اکیلے میں کیسے رہا ہے 

فقط حرفِ کُن کے لیے ہی بتاؤ

مگر خیر، چھوڑو 

سبھی فلسفے، ساری منطق، دلیلیں

سنو ایسی باتیں لکھی جا چکی ہیں

سبھی ایسے نغمے سنے جا چکے ہیں

وہ ساری کتابیں پڑھی جا چکی ہیں

حسیں رو سبھی آزمائے ہوئے ہیں

سو چھوڑو، سناؤ 

کہ ملکی معیشت کہاں جا رہی ہے

سیاست میں کیا چل رہا ہے

وہ کیا تھا 

کسی کو فلاں جرم کی پھر سزا کیا ہوئی تھی

خبر ہے کہ پھر ایک معصوم کا ریپ کر کے 

اسے جھاڑیوں میں ہی پھینکا گیا ہے

بتاؤ کہ خود کش دھماکے میں کتنے مرے 

اور کتنے سسکتے ہوئے بچ گئے تھے 

او ہاں یاد آیا، بتاؤ

محلے کے بوڑھے کی 

نوخیز بیٹی کے رشتے کا  کیا ماجرا تھا

وغیرہ وغیرہ

مگر خیر چھوڑو کہ 

میں یہ سبھی سن کے بھی کچھ نہیں کر سکوں گا

مِرے حال پر مجھ کو چھوڑو

میں اکتا گیا ہوں 


اشفاق احمد میر

2 comments:

  1. ماشاء اللہ بہت ہی خوبصورت ۔۔۔۔۔نوجوان سلامت رہو۔۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. بلاگ پر آمد، شاعری کی پسندیدگی اور جنابکی حوصلہ افزائی کا شکریہ۔

      Delete