Monday 1 April 2024

کچھ لوگ جو نخوت سے مجھے گھور رہے ہیں

 کچھ لوگ جو نخوت سے مجھے گُھور رہے ہیں

ماحول سے شاید یہ بہت دور رہے ہیں

کیا کہیے کہ کیا ہو گیا اس شہر کا عالم

جس شہر میں اُلفت کے بھی دستور رہے ہیں

مجبور کسے کہتے ہیں یہ کون بتائے

پوچھے کوئی ان سے کہ جو مجبور رہے ہیں

کچھ لوگ سر دار رہے ہوں تو رہے ہوں

ہم ہیں کہ بہر طور سرِ طُور رہے ہیں

ہنستے ہوئے چہروں پہ نہ جا سینوں میں ان کے

حالات کے ٹکراؤ سے ناسُور رہے ہیں

اے شیخ! غنیمت ہے اگر ہم کو سمجھ لو

ہم منصبِ تصدیق پہ مامور رہے ہیں

اک تم کہ خُدائی کے بھی دعوے رہے تم کو

اک ہم کہ اس اقرار سے معذُور رہے ہیں

سکان حرم کیا ہیں یہ مجھ سے کوئی پُوچھے

اللہ کے گھر میں بھی یہ مغرور رہے ہیں

احسان بڑا بوجھ ہے اس خوف سے یاور

دیوار کے سائے سے بھی ہم دور رہے ہیں


یاور عباس

No comments:

Post a Comment