اے قریۂ غم وادئ دل گیر کے لوگو
مایوس نہ ہونا مرے کشمیر کے لوگو
مانا کہ بڑی دیر سے یہ جنگ و جدل ہے
کب کس کو میسر یہاں تسکین کا پل ہے
صدیوں کی غلامی میں کئی خواب ہیں ٹوٹے
ٹوٹے ہوئے خوابوں پہ یہ رونا کوئی حل ہے
یہ دن ہی تو ہیں خواب کی تعبیر کے لوگو
مایوس نہ ہونا مرے کشمیر کے لوگو
جانیں بھی گئی ہیں یہاں جذبات لٹے ہیں
ہر بینا و نابینا اسی گھات لٹے ہیں
ان خلد نشینوں کا ابھی قرض ہے تم پر
اس جہدِ مسلسل میں جو دن رات لٹے ہیں
یہ سارے سوالات ہیں توقیر کے لوگو
مایوس نہ ہونا مرے کشمیر کے لوگو
یہ فیصلہ اب کوئی عدالت نہ کرے گی
یا کوئی بھی ہم سایہ ریاست نہ کرے گی
مٹ جائے گا فرسودہ روایات کا دھندہ
مخلوق جو ظالم کی حمایت نہ کرے گی
تم آپ کرو فیصلے تقدیر کے لوگو
مایوس نہ ہونا مرے کشمیر کے لوگو
اس جبر کی دیوار میں دروازے بناؤ
اعصاب شکن چپ ہے تو آواز اٹھاؤ
لازم ہے کہ آزاد ریاست کے سفر میں
لداخ میں وادی میں سبھی ہاتھ ملاؤ
نسلوں کے تحفظ کی ضمانت ہے اسی میں
بچوں کو ہر اک جبر کا انکار سکھاؤ
یہ وقت یہ لمحے نہیں تاخیر کے لوگو
مایوس نہ ہونا مرے کشمیر کے لوگو
بندوق ہے بندش ہے حکومت کا ستم ہے
ڈٹ جاؤ تمہیں موۓِ مبارک کی قسم ہے
اِس پار سے اُس پار سے جی جان لگادو
منزل کی مسافت ابھی دو چار قدم ہے
دن تھوڑے ہی باقی رہے زنجیر کے لوگو
مایوس نہ ہونا مرے کشمیر کے لوگو
اسلم رضا خواجہ
No comments:
Post a Comment