جن کا دل ہی مزار ہو جائے
ان پہ واجب ہے دار ہو جائے
اب تو ممکن ہے جو ملے ہم سے
وہ تہجد گزار ہو جائے
ان دنوں دوستی بڑھا رہا ہوں
جو بھی چاہے شمار ہو جائے
کوئی تو ہو مزاج کا بندہ
کوئی تو سوگ وار ہو جائے
زندگی تب سرور دیتی ہے
جب اداسی سے پیار ہو جائے
اس لئے شہر سے نہیں جاتا
کب فضا سازگار ہو جائے
اس کو چھونے کی کیا ضرورت ہے
جس کو دیکھے خمار ہو جائے
عرفان شاہد
No comments:
Post a Comment