تیرے آنے کی تھی پیش گوئی آج بھی
تیری یادوں کی مالا پروئی آج بھی
زمانے کی بھیڑ میں کہاں کھو گئے ہو
منتظر ہے تمہارا کوئی آج بھی
میری آنکھوں کے لال ڈورے تو دیکھو
کم بخت پھر نہیں سوئیں آج بھی
رات بھر تو ایسے ٹوٹ پھوٹ چلی کہ
جیسے تُو مجھ میں سموئی آج بھی
پلکوں نے تو بھگو ہی دیا مِرا چہرہ
تیری یاد میں بہت روئی آج بھی
مدہوشی کی دُنیا میں ہی مر جاؤں شائق
کیوں کرتے ہو پھر دلجوئی آج بھی
فاروق شائق
No comments:
Post a Comment