تری توجہ کا یہ ثمر ہے
تری توجہ اگر مجھے بال و پر نہ دیتی
تو مجھ پہ یہ آسمان نہ کُھلتا
رموز سے بھری ہوئی کائنات خود کو چُھپائے رکھتی
تِری توجہ کا یہ ثمر ہے
کہ اب میں غیب و حضور کا فرق جانتا ہوں
تِری توجہ میں معرفت کے سبھی لطائف چُھپے ہوئے ہیں
تِری توجہ سلوک ہے
اور یہ چشمہ حُسنِ سلوک ہی سے رواں دواں ہے
تِری توجہ نے ایک ذرے کو اعتبارِ حیات بخشا
وہ ذرّہ میں ہوں
طارق حبیب
No comments:
Post a Comment