اے ربِ ذوالجلال اے ربِ ذوالجلال
یہ آبروئے خونِ شہیداں کا ہے سوال
اے ربِ ذوالجلال اے ربِ ذوالجلال
خون اور آنسوؤں سے بھری ہے یہ داستاں
نسلوں کی جد وجہد، زمانوں کا ظلم و جبر
ایسی کوئی سڑک کہ جہاں خوں گرا نہ ہو
ایسی کوئی گلی کہ نہیں جس میں کوئی قبر
یہ مائیں، بوڑھے باپ، یہ بچے، یہ بچیاں
کرتے ہیں پیش تجھ کو بہتّر برس کا صبر
اس کے عوض عطا ہو انہیں فتح کا جلال
یہ آبروئے خونِ شہیداں کا ہے سوال
اے ربِ ذوالجلال اے ربِ ذوالجلال
جنّت نظیر کہتے ہیں اہلِ جہاں اسے
اب کربلا ہے دنیا میں کشمیر کی مثال
کشمیر! تیرے زخم نہیں دیکھتا کوئی
سارا جہان دیکھ رہا ہے تیرا جمال
کشمیر تیرے رزق پہ پلتا ہے اک جہاں
ہے دور تک زمیں پہ تیرے پانیوں کا جال
اے دن کو رات، رات کو دن کرنے والے رب
ہم خوں اچھالتے ہیں، تو سورج کوئی اچھال
یہ آبروئے خونِ شہیداں کا ہے سوال
اے ربِ ذوالجلال اے ربِ ذوالجلال
مایوس ہو نہ جائیں یہ مظلوم پُر ملال
تو جانتا ہے ان کی جو حالت، جو ان کا حال
موسیؑ کو پانی کاٹ کے رستہ بنا دیا
اِن کے لیے بھی غیب سے رستہ کوئی نکال
ظالم کواس جہان میں عبرت بنا کہ رکھ
لوگوں کا تیرےعدل پہ ایمان ہوبحال
یہ آبروئے خونِ شہیداں کا ہے سوال
اے ربِ ذوالجلال اے ربِ ذوالجلال
کٹتے ہیں روز وادی میں دیودار سے جواں
یہ دکھ وہ جانتا ہے کہ روئی ہو جس کی ماں
بے جان ہو چکے ہیں مذمّت کے سب بیاں
ایسے بیاں گزرتے ہیں کانوں پہ اب گراں
مالک! مدد ہو میرے مددگار بھائی کی
اس کے حلیف ہونے لگے اس سے خوش گماں
کشمیرکے وکیل کے بازو میں جان ڈال
یہ آبروئے خونِ شہیداں کا ہے سوال
اے ربِ ذوالجلال اے ربِ ذوالجلال
ایسا لہو کہ برف ہوئی جا رہی ہے لال
یہ آبروئے خونِ شہیداں کا ہے سوال
اے ربِ ذوالجلال اے ربِ ذوالجلال
واحد اعجاز میر
No comments:
Post a Comment