وہ رات ابھی تک باقی ہے
جس رات جرنیلوں کا جرگہ بیٹھا
جس رات ’جمہوریت اور عوام‘ پر
کار و کاری‘ کا الزام عاید ہوا’
جس رات اس دیس کی محبت مقتول بنی
جس رات جبر کا پیاسا خنجر
اس سرزمین کے سینے میں پیوست ہوا
جس رات بچے ماؤں کی بانہوں میں
چیخ چیخ کر روئے اور پھر ایک فائر ہوا
جس رات یہ دیس قبر بن گیا
جس رات میں دستور اس قبر کا کتبہ بنا
جس رات مردِ حق نے اپنا ملک فتح کیا
جس رات سنگینوں نے مانگوں میں لہو کا سندور بھرا
جس رات دلہن کے ہونٹ لہو سے سرخ ہوئے
جس رات شہداء دھرتی کے دولھے بنے
اور آمریت نے ان کے لاشے گھسیٹے
جس رات زمین پر زندگی تڑپتی رہی
جس رات آسماں پر چاند کا فانوس بُجھ گیا
جس رات کیلاش پہاڑ کے آنسو جم گئے
جس رات چترال چیخ بن گیا
جس رات مکلی نے اپنے مدفونوں کو صدا دی
جس رات سندھو دریا بین کی دُھن میں بہنے لگا
جس رات جھیلوں کے کنول ابد تک مُرجھا گئے
جس رات چوڑی گر نے اپنے ہاتھوں کو جلا دیا
جس رات لوک گیت گُھٹ کر مرنے لگے
جس رات سارے ساز سسکنے لگے
جس رات سارے آوازے دفن ہونے لگے
جس رات بی بی سی نے ایک بھیانک خبر نشر کی
جس رات کارونجھر پر ہر مور نے خودکشی کر لی
جس رات شراب کی آخری بوتل شکستہ ہوئی
جس رات ساقی کے سینے میں سنگین اُتری
جس رات مے خانہ مقتل بنا
جس رات مے کش مارے گئے
جس رات قلموں کی سیاہی سُوکھ گئی
جس رات شاعری اپنے آپ سے رُوٹھ گئی
جس رات مقدس نغمے ریپ ہوئے
جس رات اندھا موسیقار انصاف کے قتل پر
زخمی ہاتھوں سے سیمفونی تخلیق کرنے لگا
جس رات کتابیں جلتی رہیں اور سردی بڑھتی رہی
جس رات سچ کی تلاش ختم ہوئی
وہ رات بہت بھیانک تھی
وہ رات ابھی تک باقی ہے
وہ رات ابھی تک باقی ہے
وہ رات ابھی تک باقی ہے
وہ رات ۔۔
اعجاز منگی
No comments:
Post a Comment