Tuesday, 9 April 2024

سینت رکھی ہے درون ذات تنہائی بہت

 سینت رکھی ہے درونِ ذات تنہائی بہت

رنج و غم کی دل میں ہے لیکن پذیرائی بہت

زعم ہے جن سے تعلق پر تمہیں، بتلائیں کیا

تھی ہماری بھی کبھی ان سے شناسائی بہت

جان لو گے اک ذرا مشکل گھڑی آنے تو دو

دوست دنیا میں بہت کم ہیں، تماشائی بہت

کیا درِ دل پر کسی کی یاد کی دستک ہوئی؟

درد سا سینے میں لیتا ہے جو انگڑائی بہت

سامنے سب کے نگاہوں سے وہ باہم گفتگو

یاد آتی ہے تیری وہ بزم آرائی بہت

یہ نشاں ماتھے کے یوں ہی لو نہیں دینے لگے

ہم نے بھی کی ہے کسی در پر جبیں سائی بہت

پِھر تصور میں تمہارے نظم اک تازہ لکھی

پھر غزل لکھی تمہاری یاد جب آئی بہت

باعثِ عز و شرف ہیں عشق میں یہ تہمتیں

اس خرابے میں ہے گرچہ دل کی رُسوائی بہت

مفلسی کے یہ مناظر کیسے نسریں دیکھیۓ؟

ہو چکی بارِ گراں آنکھوں پہ بینائی بہت


نسرین سید

No comments:

Post a Comment