Friday 12 April 2024

خبر یہی ہے قرینے سے داستان سے میں

 خبر یہی ہے قرینے سے داستان سے میں

سرک رہا ہوں تماشے کے درمیان سے میں

غضب تو یہ ہے کہ دونوں نے ہجر کاٹ لیا

نہ جاں سے تو ہی گیا نہ ہی اپنی جان سے میں

نظر ملاتے ہوئے حالتِ سرور میں ہوں

کلام کرتے ہوئے مہوشِ گمان سے میں

بڑے دھیان سے گھر سے فرار ہوتا ہوں

نظر بچا کے تِرے عکس بد زبان سے میں

رواں دواں ہوں مخالف کی کارگاہ کی طرف

کسی کے حکم سے نکلا ہوا کمان سے میں

نکل چکی ہیں کنیزیں زنان خانے سے

نکل رہا  ہوں مِری گاہِ لا مکان سے میں

ہمارے عشق کی یہ داستاں پرانی ہے

کہ تو شجر ہے  پرندوں کے خاندان سے میں

بدن کے بوجھ نے بخیے ادھیڑ ڈالے ہیں

بکھر رہا ہوں نکلتے ہوئے جہان سے میں


صابر امانی

No comments:

Post a Comment