خبر یہی ہے قرینے سے داستان سے میں
سرک رہا ہوں تماشے کے درمیان سے میں
غضب تو یہ ہے کہ دونوں نے ہجر کاٹ لیا
نہ جاں سے تو ہی گیا نہ ہی اپنی جان سے میں
نظر ملاتے ہوئے حالتِ سرور میں ہوں
کلام کرتے ہوئے مہوشِ گمان سے میں
بڑے دھیان سے گھر سے فرار ہوتا ہوں
نظر بچا کے تِرے عکس بد زبان سے میں
رواں دواں ہوں مخالف کی کارگاہ کی طرف
کسی کے حکم سے نکلا ہوا کمان سے میں
نکل چکی ہیں کنیزیں زنان خانے سے
نکل رہا ہوں مِری گاہِ لا مکان سے میں
ہمارے عشق کی یہ داستاں پرانی ہے
کہ تو شجر ہے پرندوں کے خاندان سے میں
بدن کے بوجھ نے بخیے ادھیڑ ڈالے ہیں
بکھر رہا ہوں نکلتے ہوئے جہان سے میں
صابر امانی
No comments:
Post a Comment