تنہائی یوں بھی تو مٹائی جا سکتی ہے
سائے سے بھی ٹیک لگائی جا سکتی ہے
کاغذ پر اک دشت بنایا جا سکتا ہے
اور اس میں بھی خاک اڑائی جا سکتی ہے
صحن میں کوٸی پیڑ اگایا جا سکتا ہے
یوں گھر کی توقیر بڑھائی جا سکتی ہے
جھوٹ کچھ ایسے بولتا ہے وہ سچ لگتا ہے
محسن اس کی قسم اٹھائی جا سکتی ہے
دوست ہے آخر پڑھ لیتا ہے آنکھیں میری
کب تک دل کی بات چھپائی جا سکتی ہے
محسن دوست
No comments:
Post a Comment