Sunday 7 April 2024

در کھلا رکھتے ہیں گھر کو بھی سجا دیتے ہیں

 در کھلا رکھتے ہیں، گھر کو بھی سجا دیتے ہیں

رات بھر دل کو ہم ایسے ہی دغا دیتے ہیں

سانس تھم جاتی ہے، دھڑکن بھی بگڑ جاتی ہے

جب وہ چہرے پہ گری زُلف ہٹا دیتے ہیں

تیری یادوں نے مجھے نیند سے محروم کیا

سو بھی جاؤں تو تِرے خواب جگا دیتے ہیں

بات چھوٹی ہی سہی، رسمِ زمانہ ہے یہی

حسبِ توفیق سبھی لوگ ہوا دیتے ہیں

اب تو وعدہ جو کرے کوئی تو یاد آتا ہے

وقت پڑنے پہ کئی لوگ دغا دیتے ہیں

سلسلہ باندھ لیا تم نے ستم کرنے کا

اس طرح لوگ محبت کا صِلہ دیتے ہیں؟

بعد مرنے کے مِرے بھی نہ تیرا دل پِگھلا

ایک دو اشک تو دُشمن بھی بہا دیتے ہیں

اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظرف کا پیکر ہو گا

اپنے قاتل کو بھی جینے کی دعا دیتے ہیں

رات بھر ساتھ نبھاتے ہیں ستارے راجا

دن نکلتا ہے تو پُھولوں کو جگا دیتے ہیں


امجد علی راجا

No comments:

Post a Comment