Friday, 5 April 2024

گھر مر جاتے ہیں بیٹا جب یہ خالی رہ جائیں

 ابا تم نے گھوڑے کو گھر میں تنہا کیوں چھوڑا؟


پیارے ابا! آج مجھے تم کس جانب لے جاتے ہو؟

پیارے بیٹے! جس جانب دلدار ہوائیں چلتی ہیں

یہ کہہ کر وہ باپ اور بیٹا کھلیانوں سے نکلے

اور پرانے عکا شہر کی دیواروں تک پہنچے

بونا پارٹ کے سنگ دل لشکریوں نے جہاں بنائے

گرمی سے بچنے کو ٹیلوں کے مصنوعی سائے

باپ نے تب بیٹے سے کہا؛

اے میرے لخت جگر 

اس اڑتے بارود کی آتش سے ہرگز مت ڈر

نیچے لیٹ اور مٹی کے سینے پہ رکھ دے سر

بچ نکلے تو چڑھ جائیں گے اونچے پربت پر

جب یہ لشکری لوٹ کے اپنے دیس کو جائیں گے

ہم تب اپنے کھلیانوں میں واپس آئیں گے

پیارے ابا! اپنے گھر میں پیچھے کون بسے گا؟

پیارے بیٹے! گھر اپنے بھیتر خوشحال رہے گا

پھر اس نے گھر کی چابی کو ہاتھ میں لے کر دیکھا

ہاتھ پہ وہ اس طور رکھی تھی جیسے ہاتھ کا حصہ

دونوں چلتے چلتے ناگ پھنی کے جھاڑ سے گزرے

بیٹے! جہاں نظر آتے ہیں تجھ کو کیچل، دھبے

عین یہیں انگریز نے مجھ کو دو راتیں بُلوایا

تیرے ساونت باپ کو دُہری مشکوں میں کسوایا

لیکن آخر تک وہ اس سے کچھ نہ اُگلوا پایا

پیارے بیٹے! تم جب تھوڑے اور بڑے ہو جانا

ان بندوقوں کے ورثاء کو یہ دھبے دکھلانا

آہن پر کندہ شب خون کی تحریریں پڑھوانا

ابا! تم نے گھوڑے کو گھر پہ تنہا کیوں چھوڑا؟

بند دریچے، خالی آنگن اور بے چارہ گھوڑا

تاکہ گھر آنگن اس کے ہونے سے ڈھارس پائیں

گھر مر جاتے ہیں بیٹا! جب یہ خالی رہ جائیں


شاعری: محمود درویش

اردو ترجمہ: نجمہ ثاقب

No comments:

Post a Comment