Sunday, 7 April 2024

آنکھوں کو کیجیے ورق دل میں ڈبوئیے قلم

 آنکھوں کو کیجیے ورق دل میں ڈبوئیے قلم

ممکن ہے رقم ہو سکے ارضِ یروشلم کا غم

سُورج چڑھا ضرور ہے لیکن ڈھلی نہ شامِ غم 

صدیاں ہوئی  پکارتے؛  آ، اے نسیمِ صبح دم

بھیڑوں کی بھیڑ سے  کوئی بچے اُٹھا کے لے گیا 

غفلتِ خواب میں رہے اہل عربِ، اہل عجم 

عشق و جنون مر گئے باقی شعور نہ رہا 

موسیٰ کے بعد پھر کہیں جلوۂ طور نہ رہا

آلِ خلیلؑ کو بھی اب خوش آ گئی ہے آزری 

سمجھے زوال کا سبب ہوتی ہے صرف بے زری 

شوکتِ رفتہ کے ورق مغرب کے مور کھا گئے 

قُدس و حرم کو بیچ کر مشرق کے چور کھا گئے

اُمتِ مُسلمہ! تِرے رنج و الم کا ہے سبب 

ہائے نمازِ بے قیام، ہائے سجودِ بے نماز 

اہلِ حرم سے جا کہے کوئی یہ نکتۂ گداز 

غیرت بھی اک مقام ہے سُود وزیاں سے بے نیاز


اسلم رضا خواجہ

No comments:

Post a Comment