تیرے دستِ اختیار میں زمانوں کی کوئی قید نہیں
کوئی نہیں ایسا تیرے لمحوں کا جو حساب رکھے
شب و روز گزرتے ہیں ڈھلتی ہیں عمریں ایسے
جیسے کھلتے ہیں یہ پھول پھر مُرجھائے چلے جاتے ہیں
اک تیری ذات ہے جو انتظار کے ان لمحوں کا
رکھتی ہے علم کہ کیسے گزرنا ہے انہیں
ہے تیرے صدیوں کی عطا کردہ مُسلسل ساعت
جس نے ان ننھے سے پھولوں کو بخشیں مکمل شکلیں
چند لمحوں کی جو ساعت بچی ہے ہم میں
کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم بے مصرف گزاریں اس کو
ہم مفلسوں کے پاس چند لمحوں کا بھی اختیار نہیں
چند لمحے جو میںسر ہیں ہمارے حصے
آو ان لمحوں کو اپنے پاس اکٹھا کر لیں
وقت کے اس بہتے ہوئے تسلسل میں کبھی
کسی رنجیدہ دل نے مانگا ہے جب اپنا حصہ
سونپ دی ان گھڑیوں کی امانت اس کو
اور اک تو ہے کہ تمہاری قدرت
کسی بخشی ہوئی بھینٹ کی محتاج نہیں
اس جلتے ہوئے دن کے یہ جاتے لمحے
لرزتا ہے یہ دل کہ کہیں تاخیر نہ ہو جائے
اس سے پہلے کہ گزرتی ہوئی یادوں کے کواڑ
بند ہو جائیں اور یادیں دغا دے جائیں
یہ چند لمحے جو میسر ہیں ہیں اس پل
کسی بچھڑے محبوب کی یادوں سے منور کر لیں
شاعری؛ رابندر ناتھ ٹيگور
اردو ترجمہ؛ نعیم اللہ لغاری
No comments:
Post a Comment