اک سبز خواہش
وہ زرد موسم میں سبز خواہش
کی شاہزادی
خزاں رسیدہ چمن میں آئی
تو سب نے دیکھا
کہ دُھند رستوں سے چھٹ گئی ہے
ہوا کے آنگن سے حبس کی بدنما سی
دیوار ہٹ گئی ہے
وہ خواب کی سرزمیں سے آئی
تو ساتھ لائی
نصیب کی بہتری کے نسخے
نڈھال شاخوں کی سرفرازی کی آرزوئیں
گُلوں کی رنگت نکھارنے والے خاص اُبٹن
مگر امربیل کے سوداگر
کہ جن کو نورستہ کونپلوں
کا لہو چُرانے کی لت پڑی تھی
وہ جن کے ہاتھوں پہ بس سیاہی ملی ہوئی تھی
انہیں گوارا بھلا کہاں تھا
کہ صحنِ گُل میں بہار آئے
اُداس آنکھوں میں روشنی کا نکھار آئے
مگر وہ صدمات کی سہیلی
وہ سبز خواہش کی شاہزادی
مَری نہیں ہے
قدم بڑھائے رواں دواں ہے
سبھی محبت بھرے دلوں میں
کہ اُس کی مُٹھی میں بند جُگنو
کہ اس کی پلکوں کے خواب سارے
مِری ہتھیلی پہ آ گئے ہیں
تِری نظر میں سما گئے ہیں
صغرا صدف
صغریٰ صدف
No comments:
Post a Comment